بلاگپاکستانعلاقائیکالم نگار (روزنامہ سحر)

ہم سیاسی کٹھ پتلیاں ہیں

ہم سیاسی کٹھ پتلیاں ہیں

کالم نگار :عاکف ایاز جتوئی

گاؤں گے گھنے پیپل کے نیچے محفل جمائے بیٹھے ہم بھی  ہزاروں نوجوانوں کی طرح انڈیا کی فلموں اور ہیروئنوں کے بارے میں خوش گپیوں میں مصروف تھے ۔ گھنے پیپل کے نیچے گاؤں کے بچے بوڑھے نوجوان سبھی آ کر بیٹھتے اور خوش گپیوں سے محضوض  ہو تے تھے ۔ چوہدری صاحب کا حقہ ہمہ وقت تیار رہتا تھا اور حقے کے شیدائی اپنی اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے چہہ مگوئیاں کرتے ۔ دھوتی سنبھالتے ہوئے ستر پچھتر سال کا ایک بوڑھا پیپل کی چھاؤں میں آن کھڑا ہوا۔ فلموں کی کہانی سے  اکتا کر بوڑھے چچا نے کہا پترو کوئی سیاسی تڑکا وی لاؤ بتاؤ میرے ملک کے سیاسی حالات کیسے ہیں ؟  ۔ او بابا اب تو اگلی تیاری کر تجھے سیاست سےکیا لینا  ۔  ایک شرارتی نوجوان نے آواز کسی، تمام نوجوانوں نے قہقہہ لگایا ۔ نہ پتر نہ اس وطن کو ہر بچے بوڑھے اور جوان کی ضرورت ہے ۔اس ملک کی بقا چاہتے ہو تو آنکھ کان اور ذہن کی کھڑکیاں کھلی رکھو ورنہ یہ ملک کے رکھوالے ہی ملک کو نگل جائیں گے اور ڈکار بھی نہیں ماریں گے ۔ انہوں نے قدرے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا ۔

بابا جب آپ نوجوان تھے تب سیاست کا کیا طور طریقہ تھا ۔ میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی سوال پوچھ لیا ۔ اس وقت کی سیاست اور آج کی سیاست میں کیا فرق ہے ۔ بوڑھے بزرگ نے کرسی سنبھالتے ہوئے کہا بیٹا اس  وقت کی سیاست اور آج کی سیاست میں زمین آسمان ، اندھیرے اور روشنی کا فرق ہے ۔ اس وقت سیاست کو ایک  مقدس اور نیک عمل سمجھا جاتا تھا  جس میں انسانی  فلاح و بہبود اصل ترجیحات میں شامل تھی ۔لوگوں کی خوشحالی اور ملک کی ترقی کو ہمیشہ پیش نظر رکھا جاتا ہے۔لوگوں کے دکھوں کا مداوا کیا جاتاتھا ۔ غریبوں اور مسکینوں کی سسکیوں اور آہوں کا علاج ڈھونڈا جاتا تھا۔سیاسی آدمی وہ فہمیدہ شخص ہوتا تھا جو اپنے محلے،گائوں ،قصبے، شہر، صوبے اورملک میں غریب اور مفلوک الحال لوگوں کے دکھ درد کو مد نظر رکھ کر ایسا لائحہ عمل تلاش کرتا تھا جس سے ان کی زندگیوں میں آرام و سکون پیدا ہو۔ہماری سیاست میں جھوٹ، منافقت ،زرپرستی ،دھوکہ دہی اور فراڈ غالب آچکا ہے ۔وہ ا احساس ذمہ داری جو ہمارے حکمرانوں میں خوف خدا کے پیش نظر ہونا چاہیے تھا نا پید ہو چکا ہے ۔ہماری روشن تاریخ ہر قدم پرہمارے رہنمائوں کے لیئے مشعل راہ بنتی اگر یہ سچ کے دامن کو تھامتے اور اسلاف کے نقش قدم پر چلتے تو امریکہ کے بجائے خدا سے ڈرتے  ۔ اپنی تجوریاں بھرنے کے بجائے ملک و ملت کی سالمیت و سربلندی کی کوشش کرتے ۔تعلیمات اسلامی پر عمل  کرتے تو ہمیں دنیا میں بکائو مال بننے سے بچایا جا سکتا تھا  اور ہم  آخرت میں بھی سرخرو ہوتے  ۔ مال وزر کے دلدادہ بھول جاتے ہیں کہ مال حرام تو بے حقیقت اثاثہ ہے یہ تو مٹ جانے اور فنا ہو جانے والا  ہے ۔ہم نے اپنے آباؤ اجداد کے کارہائے نمایاں کو نظر انداز کر دیا ہے ۔اسینٹ کے انتخاب کی ہی بات کرلیں ۔ کسی منڈی کی طرح   اونچی اونچی بولیاں لگتی ہیں  پچاس اور ساٹھ کروڑ کی بولیاں تو سننے میں آتی رہی ہیں ۔اگر کوئی ضمیر فروش اپنا کالا دھن بیچ کر کسی وطن فروش سگ کوئی سیٹ لیتا ہے اور  خطیر رقم خرچ کر کے ایوان بالا میں براجمان ہو تا ہے تو آپ کو کیا لگتا ہے وہ حق کا بول بالا کرے گا ؟ نہیں ہر گز نہیں وہ وطن کا نام نہاد محافظ وطن عزیز کے ہر غریب کا خون لیے گا ۔ خدا اور دین کی بات کا تمسخر اڑائے گا ۔ مذہب اور اصول کی بات کو پرانے اور بوسیدہ خیال گردانے گا ۔

یہی جمہوریت کا نقص ہے جو تخت شاہی پر

کبھی مکار بیٹھے ہیں کبھی غدار بیٹھے ہیں

۔یہی وجہ ہے کہ ہمارا ملک معاشی لحاظ سے تباہی کے دہانے پر جا پہنچا ۔اگر ہمارے لیڈر ہارس ٹریڈنگ میں یکتائے روزگار بن جایئں گے تو کوچہ ء سیاست کی بدنامی ہوگی ۔آپ عدلیہ کی طرف اگر انگلیاں اٹھایئں ، آواز یں کسیں تو یہ حقیقت اپنی جگہ پر مسلمہ ہے قانون کی دھجیاں بکھیر دیں کوئی آپ کا بال تک باکا کہ نہیں کر سکتا بشرطیکہ آپ لیڈر ہیں ۔  ہمارے ہاں  لیڈر کے بارے میں سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے  کہ لیڈر جھوٹ نہیں بولتے  ۔مالی مار دھاڑ ہو یا ضمیر فروشی ہر طرف بے ایمانی کا  بازار گرم ہے جس کا جہاں بس چلتا ہے کرپشن کے ذریعے اثاثے بناتا ہے ۔سرے محل ، سوئزرلینڈ کے بنکوں میں پاکستانیوں کا پڑا سرمایہ، لندن فلیٹس ، آف شور کمپنیاں ۔پلاٹس ، جاگیریں اور پلازے یہ کرپشن کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔آمدنی سے بڑھ کر جنہوں نے ملک کے اندر یا ملک سے باہر اثاثے بنائے ہیں یقینا وہ لوٹ مار کا واضح ثبوت ہیں ۔ایسی صورت میں ملک کی عدلیہ کا یہ فرض ہے کہ وہ قانون کو حرکت میں لائے ۔چھان بین کرے اور بد عنوان لوگوں کو سزا دے اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ ہم بیرونی قرضے لے کر ملک کو چلا رہے ہیں ۔ہر پیدا ہونے والا بچہ قرضوں کی لعنت میں ڈوبا ہوا سرزمین پاکستان پر قدم رکھتا ہے ۔اگر ہمارے لیڈر سچ بولنے کے عادی نہیں ہوں گے تو کون یقین کرے گا کہ ورلڈ بینک ،آئی ایم ایف اور دیگر ممالک سے حاصل کردہ قرضہ جات ملک میں عوام پہ خرچ ہو رہے ہیں یا بیرونی اثاثہ جات کی خرید اور آف شور کمپنیوں کی نذر ہو ر ہے ہیں ۔کبھی کبھار ہمارے کروڑوں خرچ کرنے والے سینیٹر ز کو بھی حضرت عمر فاروقؓ کا یہ قول سامنے رکھنا چاہیئے کہ ’’ اگر فرات کے ساحل پر کتا بھی بھوکوں مرا تو عمرؓ اپنے رب کے سامنے جوابدہ ہوگا‘‘۔ لیکن یہ ضمیر فروش رب کے سامنے پیش ہونے کو بھی بھول جاتے ہیں اور وہ پروردگار بھی ان کی رسی ڈھیلی چھوڑے ہوئے ہے

لوگ کہتے ہیں کہ خدا دیکھ رہا ہے

سوچتا ہوں کہ کیا دیکھ رہا ہے

بلوچستان میں پانی کو ترستے معصوم لوگوں کے لیے منرل واٹر پی پی کر بجٹ بنائے جاتے ہیں بجٹ بنانے والے سے لے کر پانی کا پائپ لگانے والے تک ہر شخص اپنی اپنی استطاعت کے مطابق ضمیر کی قیمت لگا چکا ہوتا ہے

چند سکوں میں بک جاتا ہے انسان کا ضمیر

کون کہتا ہے میرے ملک میں مہنگائی ہے

عمران خان کی حکومت کی ہی بات کر لیں کل تک عمران خان کے قصیدے گانے والے اس کو ریاست مدینہ کے امیر کا لقب دینے والے ، اس کی پاکیزگی ایمانداری پہ قسمیں کھانے والے آج عمران خان پہ غدار ہونے کے دعوے کر رہے ہیں ۔اسے ملک فروش اور ضمیر فروش کہہ رہے ہیں ۔یہ ضمیر فروش کسی کے آگے نہیں ہے ۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ ایک طوائف نے اپنا طوطا ایک دکان والے کو بیچ دیا ۔ کچھ دن بعد پروفیسر صاحب کی بیگم اس دکان کے پاس سے گزری تو انہوں نے دکان دار سے کہا کہ وہ یہ طوطا خریدنا چاہتی ہیں دکان دار نے بہت سمجھایا کہ میڈم آپ یہ طوطا نہ خریدیں یہ بہت گالیاں دیتا ہے ۔ یہ ایک طوائف کے گھر سے آیا ہے  اس کی تربیت بہت بڑی ہوئی ہے ۔ لیکن پروفیسر صاحب کی بیٹی اپنی بات پہ ڈتی رہی ۔ آخر میں دکان دار نے پروفیسر صاحب کی بیگم کو وہ طوطا دے دیا ۔ وہ طوطا لے کر گھر آ گئی۔ ۔تھوڑی دیر بعد اس کی بیٹیاں گھر میں داخل ہوئیں تو طوطا فوراً شروع ہوگیا ۔واہ جی واہ نئی لڑکیاں آئی ہیں تیرے کوٹھے پہ تیری تو آج صحیح کمائی ہوگی ۔ عورت کو بہت عرصہ آیا لیکن وہ عرصہ پی گئی ! تھوڑی دیر بہت اس عورت کے بیٹے گھر میں داخل ہوئے تو وہ پھر چلانے لگا دیکھو دیکھو لڑکیوں کے گاہک آ گئے ۔ عورت کو مزید غصہ آیا لیکن وہ پی گئی ۔تھوڑی دیر  بعد پروفیسر صاحب گھر میں داخل ہوئے تو طوطا چلانے لگا آؤ جیدے تو یہاں بھی آتا ہے ۔اس دن سے آج تک پروفیسر صاحب گھر نہیں آئے اور وہ عورت طلاق کے لیے عدالت کے چکر کاٹ رہی ہے ۔ یہی صورت حال ان سیاست دانوں کی ہے عادت سے مجبور ہیں ۔دوسروں کی عزت اچھالنے میں کوئی کس قدر ماہر ہے وہ اتنا اہم اور سمجھدار اور کامیاب سیاست دان گردانا جاتا ہے ۔ شیطان بھی ان سیاست دانوں کے بارے میں یہی سوچتا ہوگا

جمہور کے ابلیس ہیں ارباب سیاست

باقی نہیں اب میری ضرورت تہ افلاک

یہی لوگ ہی میرے وطن عزیز کی سلامتی کے دشمن ہے انہوں نے ہی میرے وطن کی آبرو ریزی کی ہے ۔ ملک کی جڑیں کرید کرید کر اپنی تجوریاں بھرنے والے یہ نام نہاد محب وطن میرے ملک کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتے ہیں

گھر سے باہر ڈھونڈ رہے ہو دشمن کو

ہوتا ہے ہر وار ہمیشہ اندر سے

آپ میں اور اس ملک میں بسنے والا ہر شہری کسی نہ کسی حد تک ان گناہ میں شامل ہیں ۔ہم گلی نالیوں اور پیسوں کے لیے اپنے ضمیر بیچ کر ان جواریوں کو ایوانوں تک لاتے ہیں اور پھر یہ وطن فروش اس وطن عزیز اور اس کے قوانین کو اپنے در کی باندی بنا کر ہم پہ ہی اپنے ظلم و ستم کا بازار گرم کرتے ہیں ۔

یہ لوگ پاؤں نہیں ذہن سے اپاہج ہیں

ادھر چلیں گے جدھر رہنما چلاتا ھے

افسوس تو اس بات پہ ہے کہ پچھلے پچاس سالوں سے ہم مسلسل کٹھ پتلیوں کی طرح استعمال کیے جا رہے ہیں ۔ یہ گندے کیڑے روپ بدل بدل کر آتے ہیں اور نام کے دعووں کے ساتھ ہمیں آلو بنا کر اپنی تجوریاں بھرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں

صرف بھاشن ہیں میرے سب وعدے

جیت کر سب میں بھول جاتا ہے

افسوس اس بات کا ہے کہ ہم سیاسی کٹھ پتلیاں ہیں یہ مداری ہمیں استعمال کرتے ہیں وطن کو مقروض کرتے ہیں اور اپنی تجوریاں بھرنے کر اپنی راہ لیتے ہیں تب تک کوئی دوسرا مداری کوئی دوسرا تماشا تیار کر کے بیٹھا ہوتا ہے جسے دکھا کر وہ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنا چاہتا ہے ۔

حاکم بھی ہیں منصف بھی جو کہتے ہیں سر بزم

معصوم ہیں دو چار یہ غدار تو سب ہیں

Show More

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Back to top button
Close