کالم نگار (روزنامہ سحر)

ان پڑھ مبلغ

۔ان پڑھ مبلغ
کالم نگار :عاکف ایاز جتوئی
فیصل آباد سے سمندری کی طرف جائیں تو راستے میں روشن والی جھال کے قریب ایک کچی سڑک جاتی ہے ۔اس سڑک کے مشرق کی جانب تقریباً ایک کلومیٹر کی مسافت پر ایک پرانا قبرستان ہے اس قبرستان میں ایک شخص روز صبح آٹھ بجے آتا ہے اور شام تک وہاں موجود تمام درختوں کو پانی دیتا ہے ۔ ایک ٹوٹی پھوٹی کرسی پہ شام تک بیٹھا رہتا ہے ، وہاں سے گزرتے ہوۓ کسی مسافر کی مدد کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا ۔ چند دن پہلے میں اپنے رشتہ داروں سے ملنے گیا ۔ میرا اس قبرستان کے پاس سے گزر ہوا۔ میں نے ایک شخص کو کڑک دھوپ میں لکڑیاں کاٹتے دیکھا ۔پسینے سے شرابور ستر سال کا ایک شخص جو دکھنے میں صحت مند دکھائی دیتا تھا لکڑیاں کاٹنے میں مصروف تھا ۔ میں اس کے پاس گیا اور ان سے پوچھا کیا میں اس نلکے سے پانی پی سکتا ہوں ؟ کیوں نہیں سرکار ! آپ بیٹھیں میں پانی لاتا ہوں ، اتنا کہہ کر وہ وہی ٹوٹی پھوٹی کرسی اٹھا لائے اسے ایک گھنے درخت کے نیچے رکھا ۔ اپنی دستار اتاری اور کرسی کو صاف کرنے لگے ۔
میں نے کہا جناب یہ کیا کر رہے ہیں آپ ؟ کوئی بات نہیں میں ایسے ہی بیٹھ جاتا ہوں ۔نہیں سرکار ایسے تو ہم جیسے دیہاتی اور سادہ لوگ بیٹھتے ہیں ۔ مجھے بہت شرمندگی ہوئی کہ جس دستار کو ہم اپنی انا ، خود غرصی اور میں سے اونچا رکھنا چاہتے ہیں اس ان پڑھ شخص نے اسے ایک انجان انسان کے چند منٹ کے سکون کے لیے خاک آلود کر دیا ۔ جس دستار کی خاطر ہم کسی کا قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے اس مرد قلندر کی وہی دستار کیکر کی اس کانٹے دار ٹہنی کے ساتھ لٹکی تھی اور وہ ستر سال کا بوڑھا شخص کڑک دھوپ میں میرے لیے نلکے سےٹھنڈا پانی نکالنے میں مصروف تھا ۔ اس ستر سالہ ان پڑھ شخص نے مجھے چند لمحوں میں وہ کچھ سکھا دیا جو بڑے بڑے علماء کی صحبت ، مبلغین کی تبلیغ اور مفکرین کے افکار مجھے نہ سکھا سکے ۔ وہ پانی لے کر آئے انہوں نے پانی کا گلاس مجھے تھمایا اور ہاتھ باندھ کے کھڑے ہو گئے ۔ میں نے پانی کا گلاس پیا اور لے آؤں سرکار وہ فرشتہ صفت انسان مجھ پہ سحر کیے ہوئے بولا ۔ پلیز آپ مجھے سرکار نہ کہیں ، میں نے گزارش کی ۔ میں تو آپ کے بیٹوں کے جیسا ہوں ۔پتر پولیس نے مجھے کیا کہنا ہے انہوں نے احتراماً کہا میں کونسا کسی کو کوئی نقصان پہنچا رہا ہوں ۔نہیں نہیں انکل میں معافی چاہتا ہوں میرا مطلب ہے مہربانی فرما کر مجھے سرکار نہ کہیں ۔ میں بھی آپ جیسا انسان ہوں ۔ نہیں نہیں بیٹا آپ مجھ سے بہت اچھے اور معتبر ہیں ۔ یہ دوسرا طمانچہ تھا جو میں نے اپنے چہرے پہ محسوس کیا۔ میں ساری زندگی خود کو دوسروں سے بہتر ثابت کرنے کی جنگ لڑتا رہا لیکن اس نے اپنی عاجزی کے تیشے سے میری انا کا پہاڑ ایک لمحے میں گرا دیا
چلاؤں گا تیشہ میں اب عاجزی کا
انا اس کی مسمار ہو کر رہے گی
جس میں کی خاطر میں لوگوں کی عزتیں اچھالنے سے بھی گریز نہیں کرتا تھا میری وہی میں اس کی ٹوٹی پھوٹی چٹائی کے سامنے خاک آلود ہو رہی تھی۔
اتر جاتا تو رسوائی بہت ہوتی
کہ سر کا بوجھ بھی دستار جیسا تھا
ایک ہم ہیں اعلی تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے لیے نفرتیں اور کدورتیں پالتے ہیں ۔ ہم صرف خود کی عزت و عظمت کے قائل ہے نا جانے کیوں بھول جاتے ہیں کہ عزت و عظمت ،شہرت و بلندی اس قادر مطلق کے ہاتھ میں ہے ۔ ہم دستار کی بقا کے لیے کچھ بھی کر گزرتے ہیں ۔

کہیں جیسے میں کوئی چیز رکھ کر بھول جاتا ہوں
پہن لیتا ہوں جب دستار تو سر بھول جاتا ہوں

آپ یہاں کب سے ہیں ؟ کوئی سوال نہ ہونے کی وجہ سے میں نے یہی پوچھ لیا ۔ پتر مجھے یہاں سات سال ہو گئے ہیں اس قبر میں روز صبح آتا ہوں صبح سے شام تک یہاں بیٹھتا ہوں۔ کوئی پیاسا ہو تو پانی پلا دیتا ہوں کوئی بھوکا ہو تو کھانا کھلا دیتا ہوں ۔ آپ کھانا کہاں سے کھلاتے ہیں میرا تجسس بڑھا ۔ انہوں نے خار دار کیکر سے ایک گٹھڑی اتاری جس میں کچھ موجود تھا ۔ انہوں نے وہ گٹھڑی کھولی اس میں سے سوکھی روٹی نکالی اور کہنے لگے پتر جو خود کھاتا ہوں دوسروں کو بھی وہی پیش کر دیتا ہوں ۔ مجھے ایک لمحے میں اپنے دو چہرے دکھائی دینے لگے کہ میں اپنے آپ کو امیر اور معتبر ظاہر کرنے کے لیے لوگوں میں اپنی ٹھاٹھ باٹھ بنانے کے لیے ادھار رشوت اور نا جانے کتنے ناجائز طریقوں سے زمانے کے میعار پہ پورا اترنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ لیکن وہ مرد قلندر بالکل کھرا اور صاف گو تھا ۔ اسے دنیا سے اپنی حقیقت چھپانے کا کوئی شوق نہیں تھا ۔
آپ لکڑیاں کس لیے کاٹ رہے تھے ؟ بیٹا یہاں سے گزرتے ہوئے کسی اللہ کے بندے نے کہا بابا قبرستان سے میرے لیے کچھ لکڑیاں ہی اکٹھی کر دو ۔ میں روز قبرستان سے ٹوٹی پھوٹی خشک لکڑیاں اکٹھی کرتا ہوں جب کبھی اسے ضرورت پڑتی ہے وہ آتا ہے اور لے جاتا ہے ۔ آپ میں عاجزی کیسے آئی میں نے عرض کی کہنے لگے کہنے لگے بیٹا غرور تو قارون کو ہضم نہیں ہوا ہم درویش لوگوں چھوڑے گا
کج کلاہی پہ نہ مغرور ہوا کر اتنا
سر اتر آتے ہیں شاہوں کے بھی دستار کے ساتھ
بابا جی آپ کا نام کیا ہے ۔ پتر لوگ مجھے مقبول حسین کہتے ہیں ۔ ماشااللہ ، بابا مقبول حسین کوئی نصیحت ہی کر دیں کہنے لگے کہ پتر میں نے کیا نصیحت کرنی ہے ۔ ایک حکایت سنی تھی کہ کسی علاقے میں ایک بزرگ رہتا تھا جو غریبوں کو امیر ہونے کے لیے تعویز دیتا تھا ایک دن ایک عورت اس بزرگ کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ بابا جی کوئی ایسا تعویز لکھ دیں کہ میرے بچے رات کو بھوک سے رویا نہ کریں ۔بزرگ نے اس غریب عورت کی گفتگو غور سے سنی اور بیچاری سمجھ کر تعویز لکھ دیا۔اگلے ہی روز بعد کسی نے پیسوں سے بھرا تھیلا اس عورت کے گھر کے صحن میں پھینک دیا ۔ صبح عورت نے وہ تھیلا دیکھا تو بہت خوش ہوئی ۔ اس نے اپنے شوہر کو وہ پیسے دیے شوہر نے ایک دکان کرائے پر لے لی‘کاروبار میں بر کت ہوئی اور دکانیں بڑھتی گئیں‘ پیسے کی ریل پیل ہو گئی ۔پرانے صندوق میں ایک دن عورت کی نظرتعویذ پر پڑی۔ اس نے سوچا کہ نہ جانے بزرگ نے کیا لکھا تھا اس تعویذ میں؟ تجسس میں اس نے تعویز کھول ڈالا‘ لکھا تھا ’’جب پیسے کی ریل پیل ہوجائے تو سارا تجوری میں چھپانے کی بجائے کچھ ایسے گھر میں ڈال دینا جہاں رات کو بچوں کے رونے کی آواز آتی ہو‘‘۔ اب اگر میں اپنی تجوری بھرنے لگ جاؤں تو شاید تجوری بھرنے سے پہلے پہلے میری سانسوں کی ڈوری ٹوٹ جائے ۔ اس لیے اصل نیکی تو یہ ہی ہے کہ اپنے مشکل وقت میں کسی کی مشکل حل کی جائے ۔ پتر میرا تو یہ یقین ہے کہ اگر تمھارے پاس کھانے کے دو لقمے ہیں اور تو نے ان میں سے ایک لقمہ کسی کو دے دیا تو تو نے کوئی کمال نہیں کیا لیکن اگر تیرے پاس کھانے کا ایک ہی لقمہ ہے اور تم نے وہ لقمہ کسی کو دے دیا تو تب تم نے نیکی کی ۔ اس ان پڑھ مبلغ نے واضح کر دیا کہ انسان کے دو روپ ہیں ایک ظاہر دوسرا باطن ! اگر انسا ن ظاہر پرست ہوجائے تو دنیا کے رنگوں میں کھوجاتا ہے اور اگر باطن کا رنگ چڑھ جائے تو دنیا کے عارضی اور پھیکے رنگوں سے بالکل عاری ہو جاتا ہے ۔ دنیا کے رنگ مقناطیسی قوت کے حامل ہیں اور اتنے پرکشش و دلفریب ہیں کہ صوفی حضرات بھی ڈگمگاتے نظر آتے ہیں۔یہ ایک کربناک حقیقت ہے کہ دنیا میں ڈگر ی یافتہ اور ان پڑھ دونوں ہی عملی زندگی میں بری طرح ناکام ہورہے ہیں۔آخرت کا یقین بے حد کمزور اور آخرت کی نعمتوں اور راحتوں کا تصور تو تقریباََ ختم ہو چکا ہے مادی نعمتیں اور انکا تصور اس قدر غالب ہے کہ روحانی قدریں دم توڑ چکی ہیں ۔مادیت پرستی کے بڑھتے ہوئے رجحانا ت کی وجہ سے معاشرہ عدم توازن کا شکار ہو چکا ہے اور انسان انفرادی طور پر تنہائی اور اجتماعی طور پر احساس ِ محرومی کا شکار ہو رہے ہیں ،ہماری بے جا خواہشات تو ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں اور انسان خواہشات کا پیچھا کرتا کرتا سیکڑوں خواہشات ارمان کی صورت میں لے کر اس فانی دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔لیکن ہم اِس خوش نصیبی اور خوش فہمی میں مبتلا ہیں جیسے آبِ حیات پی رکھی ہو جو ہم سے پہلے کسی کونصیب نہیں ہوئی۔ آج کا ہر انسا ن مادیت کے ان رنگوں میں اس قدر ڈوبا ہوا ہے کہ خود کو ، اپنے اصل کو اور اپنے مقصد کو یکسر فراموش کرچکاہے۔اب لوگوں کی عزت و ذلت ،بلندی وپستی اور چھوٹے یا بڑے ہونے کی پیمائش تقویٰ کے پیمانے سے ہر گز نہیں ہوتی بلکہ کاروں، کوٹھیوں ،بنگلوں اور بینک بیلنس کے اعتبار سے ہو تی ہے ۔
اندر کے میلے پن کا ملے کس طرح سراغ
اندازہ لوگ کرتے ہیں اجلے لباس سے

For more info contact : 03244867200

Show More

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Back to top button
Close